قارئین! آج میں معاشرے کا ایک باب لیکر آپ کے سامنے حاضر ہوئی ہوںجس پر شائد بہت کم لوگ بات کرتے ہیں اور گھروں میں پلتے اس ناسور کی وجہ سے ہماری نسلیں برباد ہورہی ہیں اور وہ ناسور یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے مرد حضرات بھی ہیں جو بیوی کو بچوں کے سامنے بے عزت کرنا‘ مارنا اور ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہر وقت بچوں کو بیوی کے خلاف بھڑکا کر خوب اکڑ کر چلتے ہیں اور جب یہی بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی شخصیت پر کیا اثرات ہوتے ہیں اسی پر میں آج بات کروں گی:۔
بچوں کی تربیت میں کس کا ہاتھ زیادہ ہوتا ہے‘ ماں یا باپ کا! بقول ہمارے معاشرے کے بچوں کی تربیت ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے اور اگر ماں بچے کی تربیت اچھی کرنا چاہے اور شوہر ساتھ نہ دے‘ اپنی بیوی کو وہ مقام نہ دے جس کی وہ حق دار ہے‘ یہی شوہر جب بچے شعورکی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو اگر ماں بچے کو کسی غلط بات پر یا گالی گلوچ کرنے پر ماں منع کرے اور ڈانٹ دے اور شوہر بیوی کو ہی بُرا بھلا کہے اور سخت الفاظ میں بچوں کے سامنے بیوی پر ہاتھ اٹھائے اور ان کے سامنے کہے کہ بچے کو کیوں مارا یا ڈانٹا حالانکہ باپ کے سامنے بچے نے اپنی ماں کو گالی نکالی‘ اس کے باوجود بچے کے منہ پر تھپڑ مارنے کے بجائے بیوی پر ہاتھ اٹھائے اور بچے کی سائیڈ لی اور بیوی کو بے عزت کرے! تو وہاں بچے کی تربیت کیلئے ماں کیا کرسکتی ہے۔۔۔؟؟؟ شوہر اگر بیوی کے ساتھ مل کر بچوں کی بہتر پرورش کرے تو بچے بہترین ماحول میں پرورش پاکر ایک کامیاب انسان بن سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ یہ کیوں کہتا ہے کہ اولاد کی تربیت صرف ماں ہی کرتی ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ ماں باپ مل کر ہی بچوں کی تربیت کرتے ہیں ہاں۔۔۔ اس صورت میں ماں اکیلی بچوں کی تربیت کرتی ہے‘ جب شوہر کاروبار کیلئے ملک سے باہر ہوں یا عورت بیوہ ہو۔۔۔ اس پر یہ قانون لاگو آتا ہے کہ ماں نے بچے کی کیسی تربیت کی ہے لیکن جب میاں بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں تو دونوں ہی بچوں کی تربیت کے ذمہ دار ہیں۔بچوں کی تربیت اس صورت میں بہتر ہوتی ہے جب شوہر بیوی کا ساتھ دے اگر ماں بچے کو کسی بات پر سرزنش کررہی ہے تو شوہر کہے کہ ماں کی بات توجہ سے سنو۔۔۔ وہ جو کہہ رہی ہے صحیح کہہ رہی ہے‘ تمہاری ہی غلطی تھی آئندہ مجھے تمہاری شکایت نہ آئے اور بیوی کو عزت دے۔لڑکے تو خاص کر باپ کو کاپی کرتے ہیں وہ بھی باپ جیسا رویہ ماں کے ساتھ رکھتے ہیں۔آج کل تو کچھ بچے ماں کو باپ کا ڈراوا دیتے ہیں‘ الٹی گنگا بہنا اسی کو تو کہتے ہیں‘ ماں کو کہنا چاہیے کہ باپ کو آنے دو شکایت لگاؤں گی۔
ہمارے معاشرے میں کچھ شوہرجوکانوں کے کچے ہوتے ہیں تو بچے بھی ہوشیار ہوجاتے ہیں اور دیکھ لیتے ہیں کہ ابو کو ہم ماں کے خلاف کوئی بات کریں گے وہ ماں سے نہیں پوچھیں گے بلکہ اس کی بے عزتی ہی کریں گے ایسے میں ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جو کہ اس کی سگی اولاد شوہر نے اس کی نہ بننے دی‘ پڑھائی سے ان کو دور رکھا‘ باقی ہر چیز ان کو لیکر مثلاً آئی پیڈ‘ موبائل‘ انٹرنیٹ حتیٰ کہ فلمیں ساتھ بیٹھ کر دیکھی جاتی ہیں‘ اب ایسے ماحول میں بچوں کی کیا تربیت ہوگی جب گھر کا سربراہ بچوں کے سامنے ان کی ماں کو گالم گلوچ کرے‘ اس ماحول میں ماں بچوں کے پاس ہوتے ہوئے بھی دور ہے‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟مجھے تو لگتا ہے کہ وہ وقت آگیا ہے جب ماں سے بچوں کو ڈانٹنے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے اور یہی شاید قیامت کی نشانیوں میں سےہے۔
قارئین! کوئی ماں اپنی اولاد کا بُرا نہیں چاہتی‘ ہاں اس کے طریقہ کار سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے۔ مگر ہائے رے قسمت! اگر اس کی قسمت میں بُرا شوہر لکھا ہے تو وہ صرف بیوی کو تنگ کرنے کیلئے بچوں کو برباد کررہا ہے جس میں سراسر اُس باپ کا نہیں نسلوں کا نقصان ہے۔ اُس کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ بچے قیمتی سرمایہ ہیں جو بیوی کوذلیل کرنےکیلئے بچوں کو تباہ کررہا ہے کل کو جوان ہوکر اسی باپ کو جوتے ماریں گے۔ اگر ماں ناراض ہے اور وہ ماں کو منانا چاہتا ہے اور اپنی غلطی کا احساس بھی ہے تو وہاں جاہل شوہر کہے کہ ماں کو منانے کی ضرورت نہیں اس کو ناراض ہی رہنے دو‘ وہاں بچہ کیا کرے۔۔۔؟ کس کی سنے۔۔۔ اس دنیا کو دونوں رُخ دیکھنے چاہئیں کہ مرد کا اس تربیت میں کتنا ہاتھ ہے‘ کم از کم بچوں کو برائی سے روکے! اگر ماں روک رہی ہے تو اس کا ساتھ دے نہ کہ بے عزت کرے‘ بچے کی تربیت یہاں بھی ایسے خراب ہوتی ہے کہ باپ ان کو پچاس یا سو روپیہ دیتا رہے اور یہی باپ بچے کو ماں کے کمرے کے تالے الماری کے تالے توڑنے کے گُر سکھائے تو کیا ایسی حالت میں بچے کیاسیکھیں گے؟بچوں کی تربیت ماں باپ کے تعلقات سے مشروط ہے‘ اگر ان کے تعلقات کشیدہ رہیں گے اور باپ بیوی کو نیچا دکھانے کیلئے بچوں کے سامنے ماں کے خلاف زہر اگلتا رہے گا وہ بیٹا ماں کا کس طرح بنے گا‘ اگر بیٹا ماں کا نہیں بنے گا تو زندگی بھر کسی کا بھی نہیں بنے گا۔
آج تک دنیا میں دیکھا نہ سنا کہ میاں بیوی کی لڑائی میں بچوں کو باپ بیوی کے خلاف کرے بلکہ بیوی جو کام کہے اس کے الٹ ہی چلے‘ پھر بچے بھی یہی کرتے ہیں۔ ارے۔۔۔! آپ ان سے ان کی جنت ہی چھین رہے ہیں‘ باپ ماں تو نہیں بن سکتا‘ معمولی سی بات کو بنیاد بنا کر بچوں کے سامنے بیوی کو بُرا بھلا کہنا‘ ایسی ماؤں کو خدا ہی حوصلہ دے کہ ان کے سامنے ہی اس کے بچوں کا باپ بربادی کی راہ پر لیکر جارہا ہے‘ یہ بے حسی کی انتہا نہیں تو کیا ہے؟ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا میاں بیوی مل کر اولاد کی تربیت کرتے ہیں یا صرف ماں؟قارئین! چند جاہل مردوں کی وجہ سے ہمارا پورا معاشرہ متاثر ہورہا ہے خاص طور پر مستقبل کے معمار ہمارےبچے ان حالات میں کیسے کامیاب انسان بن سکیں گے۔
قارئین! کوئی ماں اپنی اولاد کا بُرا نہیں چاہتی‘ ہاں اس کے طریقہ کار سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے۔ مگر ہائے رے قسمت! اگر اس کی قسمت میں بُرا شوہر لکھا ہے تو وہ صرف بیوی کو تنگ کرنے کیلئے بچوں کو برباد کررہا ہے جس میں سراسر اُس باپ کا کیا۔۔ اُس کی نسلوں کا نقصان ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں